خطبات علامہ احسان الٰہی ظہیر
OR
وصف
’’او میری امت کے جوانان
رعنا، او میری قوم کے سپوتو! اٹھو آج تمھارے مسلک اور تمھاری جماعت کو تمھاری
ضرورت ہے۔ کس کے لیے؟ حق کی علمبرداری کے لیے! ملک میں کتاب و سنت کی عملداری کے
لیے! ملک میں کتاب و سنت کی علمداری کے لیے! شرک و گمراہی کو مٹانے کے لیے اور کتاب
و سنت کو پھیلانے کے لیے! اور ان شاء اللہ! وہ دن آنے والا ہے، جب پاکستان کی
فضاؤں میں پرچم لہرا ئے گا تو کتاب اللہ کا لہرائے گا اور سنت رسول اللہ کا لہرائے
گا.... اور اس دن کو طلوع ہونے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔‘‘ یہ اس شخصیت
کے الفاظ ہیں جس نے پاکستان میں اہل حدیث میں نئی روح پھونکی۔ جس کو اللہ تعالیٰ
نے خطابت کا ایسا ملکہ عطا کیا کہ آغا شورش کاشمیری نے ان کی ایک تقریر سن کر کہا
’’احسان الٰہی اگر تم آئندہ سے خطابت چھوڑ دو تو تمھاری صرف اس ایک تقریر سے تمھیں
برصغیر پاک و ہند کے چند بڑے خطیبوں میں شمار کیا جائے گا۔‘‘ علامہ احسان الٰہی
ظہیر شہید 31 مئی 1945ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔ اور اسلام کا یہ فرزند 23 مارچ
1987ء میں بم دھماکے میں زخمی ہونے کے بعد 30 مارچ 1987ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا
ملا۔ زیر نظر کتاب اسی بطل جلیل کے خطبات پر مشتمل ہے جو انھوں نے مختلف مواقعوں
پر دئیے۔ ان خطبات میں اسلام کیا ہے؟، اہل حدیث کی دعوت، حضرت ابوبکر صدیق رضی
اللہ عنہ ایک متفق علیہ شخصیت، سیرت عمر فاروق، واقعہ کربلا۔ پس منظر، فرقہ واریت
کا خاتمہ، حقوق العباد کی اہمیت، علما اور طلبا سے خطاب اور مولانا کا آخری خطبہ وغیرہ
شامل ہیں۔ یہ خطبات جہاں لوگوں کے عقائد و اخلاق سنوارنے کا سبب بنیں گے وہیں ان
خطبات سے اصحاب رسول کی تنقیص کرنے والوں کے مقابلہ کے لیے لوگوں کو ایسے حقائق کا
علم ہوگا جس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ یہ کتاب خطبا مقررین اور عوام و خواص کے
لیے یکساں مفید ہے۔(ع۔م)